Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

وہ بڑے انہماک سے بیٹھی آبرو کی گڑیا کی دو چوٹیاں بنا رہی تھی آبرو اس کے قریب بیٹھی بڑے پُر شوق انداز میں اپنی گڑیا کو سجتے سنورتے دیکھ رہی تھی۔ تسبیح پڑھتی اماں نے پیار بھری نگاہ پری اور آبروپر ڈالی تھی اور ان کے چہرے پر اطمینان پھیل گیا تھا۔ ان کو بخوبی یاد تھا جب صباحت کو معلوم ہوا تھا کہ ان کی کوکھ میں لڑکا نہیں لڑکی ہی ہے تو وہ بد دل ہو گئی تھیں۔
وقت زیادہ گزرنے کے باعث وہ اس سے چھٹکارا نہیں پا سکی تھیں اور یہی وجہ تھی شاید…وہ آبرو کی پیدائش کے بعد اس کو وہ پیار و توجہ نہ دے سکی تھیں جو عادلہ اور عائزہ کو دیتی تھیں۔ ماں کی دیکھا دیکھی عادلہ و عائزہ بھی اس کو اہمیت نہ دیتی تھی کہ وہ صباحت کی طرح صرف خود کو اہمیت دینے کے رجحان میں مبتلا تھیں۔ ایسے میں وہ پری کی محبتوں کا مرکز بن بیٹھی تھ غیر محسوس طریقے سے وہ اس کی ضرورتوں کا خیال رکھنے لگی۔
(جاری ہے)
البتہ صباحت کی ناراضگی کے خوف سے گود میں کم ہی اٹھاتی تھی پھر اس نے محسوس کیا ان کو آبرو کے لینے پر کوئی اعتراض نہیں ہے عموماً وہ کئی کئی گھنٹے آبرو کو پری کے پاس دے کر بلاتی نہ تھیں۔ یہ واحد سمجھوتا تھا جو انہوں نے خاموشی سے اس سے کر لیا تھا۔ آبرو دو سال کی ہوئی تو پری سے اس قدر مانوس ہوئی کہ رات کو بھی اس کے پاس سونے لگی تھی اور اس طرح صباحت آبرو کی پرورش سے بالکل ہی بے نیاز ہو گئی تھیں۔
اب یہ پری کی ذمے داری تھی مکمل طور پر…وہ اس کی نگہداشت کرتی تھی بہت محبت و پیار سے……چھ سالہ پھولے پھولے گالوں ومیدے جیسی رنگت والی آبرو میں ا س کو اپنا بچپن نظر آتا تھا۔ وہ پیاری باتیں کرتی تھی اور شرماتی بہت تھی اجنبی لوگوں سے بے تکلف نہیں ہوتی تھی۔

”دادی! میری گڑیا کتنی پیاری لگ رہی ہے۔“ پری سے گڑیا لے کر وہ ان کے پاس آگئی جن کے لبوں پر خوب صورت مسکان تھی۔

”پیاری آپی نے سجایا ہے گڑیا کو تو گڑیا پیاری تو لگے گی۔“ دادی اماں نے پری کو دیکھتے ہوئے کہا۔ آبرو خوشی خوشی گڑیا کو لے کر کمرے سے نکل گئی ۔ پری ان کے قریب بیٹھتے ہوئے حیران لہجے میں بولی۔

”دادی جان!بڑی پیار بھری نظروں سے میری طرف دیکھ رہی ہیں کیا دادا کی شبیبہ میرے چہرے پر نظر آرہی ہے؟“

”ہٹ بے حیا! میں تو جب بھی تم کو آبرو سے اتنی محبت کرتے دیکھتی ہوں میرے اندر خوشیاں جھلملانے لگتی ہیں۔
جتنی محبت تم اس سے کرتی ہو جتنا خیال رکھتی ہو ایسا تو صباحت بھی نہیں رکھ سکتی تھی۔“ وہ سچے لہجے میں اس کی محبت خلوص کو سراہ رہی تھیں۔

”چراغ سے چراغ روشن ہوتا ہے دادی!میری ممی کے ہوتے ہوئے بھی آپ نے میری نگہداشت کی بات کرنے کا ڈھنگ زندگی کا سلیقہ و طریقہ سکھایا۔ آپ یہ مت سمجھیے گا کہ میں آپ کی حرص کر رہی ہوں یا میں بدلہ چکا رہی ہوں۔
“ اس نے عقیدت سے دادی کے ہاتھ چومتے ہوئے کہا۔

”جو آپ نے کیا وہ میں ہر گزہر گز نہیں کر سکتی البتہ میں نے یہ ضرور کوشش کی ہے کہ آبرو کی شخصیت میں وہ کمی وہ خامیاں نہ رہ جائیں جو میرے اندر وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی جا رہی ہیں۔ میں بظاہر جتنی مکمل نظر آتی ہوں اندر سے میں اتنی ادھوری ہی ہوں۔ کسی تصویر کی طرح نا مکمل……کسی معمہ کی طرح غیر حل شدہ……کسی شکستہ آئینے کی طرح بکھری ہوئی……“ وہ ان کے ہاتھ کو آنکھوں سے لگائے بے خود سی کہہ رہی تھی۔

”عائزہ کو میں نے چائے کا کہا تھا ایک گھنٹے پہلے ابھی تک نہیں لائی۔“ ان کو یاد آیا تو وہ گویا ہوئیں۔

”وہ بھول گئی ہو گی۔“ پری نے کہا۔

”کام کی باتوں کی تو ان کو بھول ہی پڑ جاتی ہے ہمیشہ۔“

”آپ غصہ نہ کریں میں بنا کرلے آتی ہوں۔“

”رہنے دو بس کل طغرل کا کمرا صاف کر کے تم نے میرا دل جیت لیا ہے۔“ وہ ان کو کیا بتاتی کس دکھی دل سے اس نے اپنے کمرے کی صفائی کی تھی۔
کتنا ضبط کا کام ہے اپنی قیمتی شے کو دل نہ چاہتے ہوئے بھی کس دوسرے کے تصرف میں دیکھنا اور کل وہ اس امتحان سے بھی گزر گئی تھی نگاہ بھر کر اس نے اپنی قیمتی شے کو نہ دیکھا تھا۔ طغرل کے آنے سے قبل ہی کمرا صاف کر کے نکل آئی تھی اور کتنی دیر تک اس کو کچھ کھونے کا احساس ہوتا رہا تھا۔

”اب تم روز خود صفائی کر دیا کرنا مجھے روز روز کہنا نہ پڑے۔
“ ان کی بات پر اس نے چونک کر دیکھا۔ لمحہ بھر تو وہ ساکت رہی پر سمجھ آتے ہی دادی سے مخاطب ہوئی تھی۔

”یہ……یہ بے ایمانی ہے دادی جان!“ وہ تیز لہجے میں بولی۔“ یہ دھوکا ہے آپ نے یہ نہیں کہا تھا کہ مجھے روز صفائی کرنی ہو گی۔“

”لو یہ بھی کوئی بات ہے کیا تم روز اس کمرے کی صفائی نہیں کرتی تھیں…… اب روز کر لو گی تو کیا بگڑ جائے گا جو دماغ دکھا رہی ہو؟“

”پہلے میں اس کمرے می رہتی تھی اس لیے روز صفائی کرتی تھی اب جب تک وہ اس کمرے میں ہے میرا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔


”میں نے خوامخواہ اتنی تعریفیں کیں تمہاری جب کہ تم کسی ایک تعریف کے بھی قابل ہیں ہو۔ زبان دراز وبد تمیز کہیں کی۔“ وہ فوراً ہی اس کی طبیعت صاف کرنے لگی تھیں۔ 

”آپ کتنی منافق ہیں دادی جان! ابھی کچھ دیر پہلی تو بڑے پھول جھڑ رہے تھے آپ کے منہ سے میرے لیے میں نے ذرا سچ بات کہہ دی تو آپ کو بدتمیز اور زبان دراز لگنے لگی یہ کیسی محبت ہے دادی۔

”میں تمہاری دادی ہوں تم میری دادی بننے کی کوشش مت کرو۔“ ان کا مزاج بگڑا تو بگڑتا ہی چلا گیا تھا۔”بچے کو آئے کتنے دن ہو گئے ہیں مگر تم کو سلام کرنا بھی گوارا نہیں ہوا۔یہ ہٹ دھرمی ذرا اچھی نہیں ہے۔“ انہوں نے سخت لہجے میں جتایا۔

”میرا سلام کرنا اس کو اتنا ضروری کیوں ہے؟“ دادی کی مسلسل اس تکرار سے اس کو چڑہونے لگی تھی۔

”اس لیے کہ تم اس سے بلاوجہ بیر باندھے بیٹھی ہو کیا بگاڑا ہے اس بچے نے تمہارا……؟“ اتنے سال بعد آیا ہے وہ اور تم ہو کہ اس سے دو بات کرنے کو راضی نہیں؟“ دادی کی بات جاری تھی جب ہی راہداری سے آنے والی خوش بو اس کی آمد کا پتا دینے لگی تھی۔ دادی کے مزاج پر چھائے بادل یکدم ہی چھٹ گئے تھے اور سردیوں کی نرم وملائم خوب صورت دھوپ کی مانند مسکراہٹ ان کے چہرے پر پھیلتی چلی گئی تھی لمحہ بھر میں ان کا بدلتا مزاج پری کو سراسیمہ کر گیا تھا۔
موقع ہی نہی ملا کہ وہ وہاں سے بھاگ کر ہالکونی پر چلی جاتی وہ پر دہ ہٹا کر اندر آیا تو وہ دادی کی گھورتی نگاہوں کے باوجود سرعت سے ان کے پیچھے کسی حد تک روپوش ہوئی تھی لیکن دھان پان سی دادی کے پیچھے چھپنا محال تھا اور حقیقت میں دادی کا ارادہ بھی اس کو پناہ دینے کا نہیں تھا۔ عجلت میں چہرہ ان کی پشت کے پیچھے کر سکی تھی۔

”اوہ سوری دادی جان! میں سمجھا آپ تنہا ہیں سو بنا دستک دیئے آگیا۔
“ وہ جو اپنی دھن میں آیا تھا س لڑکی کو سراسیمہ انداز میں دادی کے پیچھے چہرہ چھپاتے دیکھ کر شرمندگی سے واپس جاتے ہوئے بولا۔

”واپس کہاں جا رہے ہو بیٹا! یہ کوئی غیر تھوڑی اپنی پری ہے۔“ زمانے بھر کی مٹھاس ان کے لہجے میں درآئی تھی پری کے نام پر وہ بھی اطمینان سے پلٹا تھا اور دادی کے قریب ہی بیٹھ گیا تھا۔ اس کی نگاہ پری کے سر اپا پر تھی۔
سیاہ ودھانی رنگوں کے امتزاج والے پر نٹڈ کپڑوں میں اس کی شفافت رنگت دمک رہی تھی۔ اس کے چہرے کے دلکشن نقوش نمایاں تھے۔ دانستہ یا غیر داستہ طور پر دادی جان نے بیڈ پر رکھے تکیوں سے ٹیک لگائی اور وہ جوان کی پشت کے پیچھے دبکی ہوئی تھی بالکل سامنے آگئی تھی۔ طغرل نے جو اسے کچن میں سرسری طور پر دیکھا تھا اب دادی کی موجودگی کا خیال نہ ہوتا تو دیکھتا ہی رہ جاتا۔
بڑی مشکل سے اپنی نگاہوں کو قابو کر پایا تھا۔

”کیسی ہو تم پارس!“ اس نے لہجہ کو خاصا مہذب بنایا تھا۔ وہ کیا بولتی سمجھ ہی نہیں آیا ہنوز چہرہ جھکائے بیٹھی رہی۔

”بھائی کچھ پوچھ رہا ہے منہ میں کیا گوند چپکا کر بیٹھ گئی ہو؟ سلام تم سے نہیں کیا جاتا تو کم از کم اس کا تو جواب دے دو جو بچہ پوچھ رہا ہے۔“ ان کو اپنے لاڈلے کی ایسی بے عزتی کہاں برداشت ہوئی فوراً جھڑک کر بولیں۔

”آپ غصہ مت ہوں دادی جان! اگرچہ مجھ سے بات کرنا نہیں چاہ رہی تو کوئی بات نہیں میں بُرا نہیں مان رہا ہوں۔“ اس کی تابعداری و فرماں برداری پری کو ایک آنکھ نہیں بھارہی تھی اس کی نگاہوں کی تپش وہ اپنے چہرے پر مسلسل محسوس کر رہی تھی۔

”یہ تم سے بات کرنا کیوں نہیں چاہے گی؟“ دادی کو اس کی ڈھٹائی ایک آنکھ نہیں بھائی تو غصہ سے سرخ ہو کر گویا ہوئیں۔

”کون سا تم وراثت میں سے اس کا حق غصب کر بیٹھے ہو؟“

”شاید یا اس کو میرا یہاں آنا پسند نہیں آیا ہے۔“ اس نے خاصے بھولپن سے کہا۔

”اس پر بھلا تمہارا کیا بوجھ…جو یہ تمہارا آنا پسند نہیں کرے گی؟“ دادی تو گویا جواب دینے کا عہد کر بیٹھی تھیں۔ ان کی یہ بے وفائی غیر متوقع ہر گز نہ تھی مگر پھر بھی پہلی بار سامنا ہونے پر ہی اس شاندار بے عزتی پر اس کا غم و غصہ ہے بُرا حال ہو رہا تھا مارے کوفت کے چہرہ سرخ ہو چکا تھا۔
اس کے لیے حیرت انگیز بات تھی وہ اس کی باتیں اور دادی کی صلواتیں جس صبر وبرداشت سے سن رہی تھی پہلے تو ایسا کبھی نہیں ہوا تھا وہ بے حد چھوٹی و معمولی باتوں پر اس آگ کی طرح بھڑک اٹھتی تھی جو بجھائے نہیں بجھتی تھی۔

”دادی جان! آپ کو کیوں اس قدر غصہ آرہا ہے میں نے کیا کیا ہے؟“ ان کو مسلسل غصہ سے بڑ بڑاتے دیکھ کر وہ آہستگی سے گویا ہوئی۔

”غصہ نہیں آئے گا؟ نہ تم نے بھائی کو سلام کیا نہ بات کا جواب دیا؟“ دادی وہی مرغ کی ایک ٹانگ پکڑے بیٹھی تھیں۔

”السلام علیکم! میں ٹھیک ہوں۔“ اس نے نہایت جلے کٹے انداز میں لمحہ بھر کو نگاہیں اٹھ اکر طغرل کو دیکھ کر سلام کے ساتھ اس کے سوال کا جواب بھی دیا۔

”وعلیکم السلام! جیتی رہو۔ اس نے پری کے انداز پر بے ساختہ اُمڈنے والے قہقہ کو ضبط کرتے ہوئے بزرگان انداز میں کہا۔

”سلام کیا ہے یا لٹھ مارا ہے؟ میں کہتی ہوں پری سدھر جاؤ۔“

”میں نے سنا ہے دادی! ایک جانور ایسا ہے جس کی دم بہت مشہور ہے اور یہ بھی سنا ہے اس کی دم سو سال نلکی میں رکھنے کے بعد ننکالی جائے تو ٹیڑھی کی ٹیڑھی ہی نکلتی ہے کچھ انسانوں کے مزاج کی طرح……؟“

”پری! چائے بنا کر لاؤ۔“ دادی نے اس کو وہاں سے ٹالا پھر گویا ہوئیں۔
”پری اور تم اس دم کی طرح ہی ہو جو کبھی سیدھی نہیں ہو سکتی ہے۔“

###

رات نصف سے زیادہ گزر چکی تھی۔

نیند اس کی آنکھوں سے روٹھی ہوئی تھی۔ کل اس کی سنی سے ملاقات تھی۔ وردہ امی سے اپنی ممی وکزنز کے ساتھ پکنک پر جانے کی غلط بیانی کر چکی تھی۔ درحقیقت وہ سنی کے ساتھ جانے کی منصوبہ بندی تھی۔ پہلے دو تین دن وہ منع کرتی رہی کہ وہ کسی صورت ایسی غیر اخلاقی حرکت نہیں کرے گی والدین کے اعتبار و اعتماد کو دھوکا نہیں دے گی مگر وردہ نے نا معلوم اپنی باتوں سے ایسا کیا سحر پھونکا تھا کہ وہ نہ نہ کرتے کرتے بھی اقرار کر بیٹھی تھی۔
لاابالی عمر تھی اور اس عمر میں خوابوں کے دیس بسے ہوتے ہیں جذبوں کے پھول پر چاہت کی تتلیاں رقص کرتی رہتی ہیں۔ وہ بھی ایک لڑکی تھی۔

ار مان و عنایتیں اس کے دل میں بھی جنم لے چکی تھیں اور ان کو پروان چڑھانے میں وردہ کی ہمت وحوصلہ فزائی حد سے سوا تھی وہ بھی اس کو اس راہ پر کامزن کرنے میں معاون تھی نامعلوم وہ وردہ سے مخلص تھی یا س کی تمام ترہمدردیاں اپنے کزن سے وابستہ تھیں؟

اسی ادھیڑ بن میں کسی لمحہ وہ نیند کی آغوش میں سمٹ گئی تھی۔
رضیہ حسب عادت نماز فجر سے پہلے ہی بیدار ہو چکی تھیں ان کے شوہر نماز فجر ادا کرنے مسجد چلے گئے تو وہ بھی نماز ادا کرنے کھڑی ہو گئی اور نماز کے بعد خاصی دیر تک دعائیں مانگتی رہیں ان کی آنکھیں بار بار نم ہو رہی تھی دل پر عجیب سا بوجھا آگرا تھا۔ وردہ کے بار بار اصرار پر انہوں نے کل اظہر صاحب سے رجاء کو پکنک پر بھیجنے کی اجازت طلب کی تو انہوں نے انکار کر دیا تھا۔

”آپ تو صبح سے نکلے رات گئے گھر آتے ہیں آپ کو کیا معلوم رجاء کتنی پریشان وبدحواس رہنے لگی ہے امتحانوں کی فکر کی وجہ سے ب

   3
0 Comments